logo

Qaseeda-e-Meraj - Hafiz Tahir Qadri -2017

سرے لا مکاں سے طلب ہوئی، سوئے منتہا وہ چلے نبی
کوئی حد ہے ان کے عروج کی،بلغ العلیٰ بکمالہ

ہیں صَف آرا سب حُور و ملک اور غِلماں خُلد سجاتے ہیں
اِک دھوم ہے عرشِ اعظم پرمِہمان خُدا کے آتے ہیں

ہے آج فلک روشن روشن،ہیں تارے بھی جگمگ جگمگ
محبوب خُدا کے آتے ہیں محبوب خُدا کے آتے ہیں

وہ سَرورِ کِشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گَر ہوئے تھے
نئے نرالے طَرَب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے

وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رَچی تھی شادی مَچی تھی دُھومیں
اُدھر سے اَنوار ہنستے آتے اِدھر سے نَفْحات اُٹھ رہے تھے

اتار کر ان کے رخ کا صدقہ، وہ نور کا بٹ رہا تھا بادہ
کہ چاند سورج مچل مچل کر، جبیں کی خیرات مانگتے تھے

وہی تو اب تک چھلک رہا ہے، وہی تو جو بن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گرا تھا پانی، کٹورے تاروں نے بھر لیے تھے

بچا جو تلووں کا ان کے دھوون، بنا وہ جنت کا رنگ و روغن
جنہوں نے دولہا کی پائی اُترن، وہ پھول گلزارِ نور کے تھے

قربان ہے شان و عظمت پر، سوئے ہیں چین سے بستر پر
جبریلِ امین حاضر ہو کر، معراج کا مژدہ سناتے ہیں

جبریل براق سجا کر کے،فردوسِ بری سے لے آئے
بارات فرشتوں کی آئی،معراج کو دولہا جاتے ہیں

غبار بن کر نثار جائیں کہاں اب اس رہ گزر کو پائیں
ہمارے دل حوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پر جہاں بچھے تھے

بہار ہے شادیاں مبارک، چمن کو آبادیاں مبارک
ملک فلک اپنی اپنی لے میں، یہ گھرانا دل کا بولتے تھے

خوشی کے بادل اُمت کے آئے، دلوں کے طاؤس رنگ لائے
وہ نغمۂ نعت کا سماں تھا، حرم کو خود وجد آ رہے تھے

تبارک اللہ ہے شان تیری، تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوشِ لن ترانی، کہیں تقاضے وصال کے تھے

بَڑھ اے محمد! قَریں ہو اَحمد! قریب آ سَروَرِ مُمَجَّد!
نِثار جاؤں یہ کیا نِدا تھی یہ کیا سَماں تھا یہ کیا مَزے تھے

حجاب اُٹھنے میں لاکھوں پردے، ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصلِ فرقت، جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے

وہی ہے اوّل وہی ہے آخر، وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اسی کے جلوے اسی سے ملنے، اسی سے اس کی طرف گئے تھے

اقصیٰ میں سواری جب پہنچی، جبریل نے بڑھ کے کہی تکبیر
نبیوں کی امامت اب بڑھ کر، سلطانِ جہاں فرماتے ہیں

وہ کیسا حسین منظر ہوگا، جب دولہا بنا سرور ہوگا
عشاق تصور کر کر کے، بس روتے ہی رہ جاتے ہیں

نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سِر، عیاں ہو معنیِ اوّل آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر،جو سلطنت آگے کر گئے تھے

نبئ رحمت شفیع امت رضؔا پہ للہ ہو عنایت
اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے

اللہ کی رحمت سے دلبر، جا پہنچے دنا کی منزل پر
اللہ کا جلوہ بھی دیکھا، دیدار کی لذت پاتے ہیں

معراج کی شب تو یاد رکھا، پھر حشر میں کیسے بھولیں گے
عطار اسی امید پہ ہم، دن اپنے گزارے جاتے ہیں